بسم اللہ الرحمٰن الرحیم معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے مثال سفر ، ایک عظیم معجزہ شب اسریٰ کے دولہا پر دائم درود ۔۔۔۔۔ نوشہ ...
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے مثال سفر ، ایک
عظیم معجزہ
شب اسریٰ کے دولہا پر دائم
درود ۔۔۔۔۔ نوشہ
بزم جنت پہ لاکھوں سلام
سفرِمعراج دراصل سفرِاِرتقاء ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ
عظیم مُعجزہ ہے جس پر اِنسانی عقل آج بھی حیرت کدہ ہے۔ اِنتہائی قلیل وقت
میں مسجدِ حرام سے
بیت المقدس تک کی طویل مسافت طے ہو جاتی ہے۔ قرآن اِس کا ذکر اِن اَلفاظ میں کرتا
ہے۔
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ
لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي
بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ 0
(بنی اِسرائيل، 17 : 1)
ترجمہ: خدائے وحدہ لاشریک
کی پاک ہے جو اپنے مقرب و محبوب بندے (سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) کو رات کے مختصر حصہ میں مسجدِ حرام سے
مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ
ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے
والا ہے۔
معراج شریف
اللہ تعالیٰ نے
اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد
حرام سے بیت المقدس اور وہا ں سے عرش معلیٰ تک کی سیر کروائی۔ ماہ رجب کی ستائیسوں
شب حضرت امٰ ہانی کے دولت کدے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم آرام فر ما تھے کہ یکایک مکان کی چھت لائکہ کے جھرمٹ میں جبرائیل
امینؑ اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نیم
خوابی کے عالم سے بیداری کے عالم میں لائے۔ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم اپنے اسی جسم کے ساتھ یہاں سے مسجد حرام کی طرف روانہ ہوئے،
وہاں آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم حطیم کعبہ میں آرام فرما ہوئے۔ چند لمحو ں بعد جبرائیل
ومیکائیکل ؑ کے جگایا اور زم زم کے کنویں کے قریب لے آئے،یہاں آپ لیٹ گئےمسجد حرام
مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک تک کے سفر کے "اسراء"اور بیت المقدس کے سفر
کو "معراج" کہتے ہیں۔
معراج شریف کی مبارک سیر کا آغاز ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک سینے کو شق کیا گیا اور قلب اطہر کو نکال کر آب زم زم سے دھویا گیا ، سونے کے طشت کو لایا گیاجو ایماں اور حکمت سے بھرا ہوا تھا۔ ایمان و حکمت کو آپ کے قلب مبارک میں بھر دیا گیااور قلب اطہر کو دو بارہ اپنے مقام پر رکھ دیا گیا۔اور دونوں کندھوں کے درمیان ختم نبوت کی ایک مہر لگا دی گئی۔ جبرائیل و میکائیل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمر کاب تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : فرماتے ہیں کہ راستے میں میرا گزر ایک ایسی زمیں پر ہوا
جس میں کھجور کے درخت بکثرت تھے،جبرائیل امین ؑ نے عرض کی کہ یہاں اتر کر دررکعات نماز
(نفل ) پڑھ لیجیے، اس جگہ کے بارے میں بتایا کہ یہ یثرب (مدینہ منورہ)ہے۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےہجرت کر کے آنا ہے۔
آگے وادی سینا کا مقام آیا، جبرائیل
امین علیہ السلام نے عرض کیا! اس
مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا اس لیے یہاں بھی دو رکعا
ت نفل پڑھ لیجیے ۔ وہاں سے حضرت شعیب علیہ
السلام کی بستی "مدین " پہنچے ، جبرائیل امین علیہ السلام یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں بھی دو
رکعات پڑھ لیجیے۔ وہاں سے مقام بیت اللحم پہنچے ہیں، عرض کی دو رکعت پڑھ لیجیے ۔
وہاں سے چلے تو بیت المقدس پہنچے ، جبرائیل امین علیہ السلام نے عرض کی : حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں بھی دو رکعات پڑھ
لیجیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور
سینوں کو چھیل رہے تھے۔ میں نے جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھا ، یہ کون ہیں؟
جواب دیا گیا کہ وہ جو لوگوں کے گوشت کھاتے (غیبت کرتے )تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ میرا گزر ایسے لوگوں پر بھی ہوا جن کے پیٹ اتنے بڑے بڑے تھے ، جیسے (انسانوں کے رہنے
کے) گھر ہوتے ہیں، ان میں سانپ تھے جو باہر سے ان کے پیٹوں میں نظر آرہے تھے ، دریافت
فرمانے پر جبرائیل امین علیہ السلام نے بتایا
کہ یہ سود کھانے والے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سر پتھروں سے
کچلے جا رہے تھے، کچل جانے کے بعد پھر پہلے ہی کی طرح ہو جاتے ، یہ سلسلہ جاری تھا
، ختم نہیں ہو رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل امین علیہ السلام نے عرض کی یہ لوگ فرض نماز میں
سستی کرنے والے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : کا گزر ایسے
لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کی شرمگاہوں کے آگے اور پیچھے چیتھڑے لپتے ہوئے تھے
اور اونٹ کی طرح وبیل کی طرح چتے اور کانٹے دارو خبیث درخت اور جہنم کے پتھر کھا
رہے تھے ، پوچھا گیا کہ یہ کون ہیں ؟ تو جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : کا گزر ایسے
لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں
کچا اور سڑا ہوا گوشت ہے ، یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھار ہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں
کھا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جن کے
پاس حلال اور طیب عورت موجود مگر وہ زانیہ
اور فاحشہ عورت کے ساتھ شب باشی کرتے ہیں اور صبح تک اسی کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ
عورتیں جو حلال اور طیب شوہر چھوڑ کر کسی زانی اوربدکار شخص کے ساتھ رات گزارتی
ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سفر میں ایک لکڑی دیکھی جو گزرنے والوں کے کپڑوں کو
پھاڑ ڈالتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ان لوگوں کی
مثال ہے جو راستوں میں چھپ کر بیٹھتے ہیں اور ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
دوران سفر ایسے شخص کے
پاس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا ، جس نے لکڑیوں کا بھاری گٹھا جمع کر رکھا ہوا
اور میں اٹھانے کی ہمت نہیں ، پھر بھی لکڑیاں جمع کر کر کے گٹھے کو بڑھا رہا ہے ،
پوچھنے پر جبرائیل علیہ السلام نے بتایا یہ وہ شخص ہے جو صحیح طور پر امانت ادا
نہیں کرتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : کا گزر ایسی قوم پر ہوا جن کی زبانیں اور باچھیں لوہے کی
قینچیوں سے کاٹی جارہی تھیں ، جبرائیل
علیہ السلام نے عرض کی یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
امت کے بے عمل عالم ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: کا گزر خوشبووالی جگہ سے ہوا جبرائیل علیہ السلام نے بتایا یہ جنت ہے اور بدبو دار جگہ جہنم سے بھی گزر ہوا ۔ ابن
عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے ، آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے دجال اور داروغہ جہنم کو بھی دیکھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : نے چند اہل جنت کے احوال بھی مشاہدہ فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ایک ایسی قوم پرہوا
جو ایک دن میں بیچ بوتے اورفصل کاشت کر رہے تھے، ان کے بارے میں جبرائیل ؑنے بتایا
کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے
مجاہدین ہیں،ان کی ایک نیکی سات سونیکیوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ اور یہ جو کچھ
خرچ کرتے ہیں اللہ ان کو اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے۔ اسی طرح بعض صحابہ کرام کے محلات بھی آپ نے اس سفر میں دیکھے۔
آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم : بیت
المقدس پہنچے، جہاں پہلے سے انبیائے کرام علہیم السلام اور لائکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انتظار میں تھے،حضرت
جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑا اور مصلیٰ امت پر کھڑا کر
دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب کودو
رکعات نماز پڑھائی اور "امام الانبیاء کرام علہیم السلام سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد سنی اور آخر
میں خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اللہ کی حمد وثنا بیان کی۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مسجد سے باہر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پانی، شراب اور دووھ کا ایک ایک
پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دودھ کا پیالہ لیا جس پر جبرائیل امینؑ نے کہا کہ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین فطر ت کو لیا ہے۔ اگر آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شراب کا پیالہ لیتے تو آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت
گمراہ ہوجاتی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی کا پیالہ لیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی امت غرق ہو جاتی۔
بیت المقدس سے عرش معلیٰ تک کا سفر شروع ہوا۔ بالترتیب پہلے تا ساتویں آسمان پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت آدم ، حضرت عیسٰی، حضرت یوسف، حضرت ادریس، حضرت ہارون، حضرت موسٰی اور حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات فرمائی۔ پہلے آسمان پر ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی ان کا حق پہلے بنتا تھا۔ کیونکہ آپ ابو لانبیاء ہیں۔ پھر حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ہوئی، حضرت عیسٰی علیہ السلام وہ نبی ہیں۔جنہیں خدا نے زندہ آسمان پر اٹھایا ہے۔ ،پھر دوبارہ اترانا بھی ہے، اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بتانے کے لیےکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ میں اپنوں سے سختیاں جھیلی ہیں۔ یوسف علیہ السلام کے ساتھ بھی اپنوں نے یہ معاملہ کیا تھا، لیکن ایک وقت آیا تھا کہ یہ فاتح بنے تھے، انہوں نے اپنوں کو معاف کیا تھا، حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ایک وقت آنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فاتح بننا ہے تو یوسف کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی معاف کر دینا ہے۔
پھر حضرت اوریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے خطوط ایجاد کیے ہیں۔ حضرت ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، حضرت موسیٰ جب تورات لینے کوہ طور پر گئے تھے۔ تو پیچھے حضرت ہارون تھے۔ اور ان کی قوم نے بچھڑے کی پوجا کی ہے۔ تو اس کی قوم کو ہلاک کر دیا گیا۔ حضرت ہارون کی قوم نے شرک ہوا تو ان کی قوم ہلاک ہوئی، اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر آپ کی قوم شرک کر ے گی تو ان کو میدان بدر میں قتل کر دیا جائے گا۔
پھرحضرت موسیٰ علیہ
السلام سے ملاقات کرائی، حضرت موسٰی علیہ السلام نے شام میں جہاد کیا، حضور ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جہاد کے لیے نکلیں گے چناچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شام کے جہاد کے لیے تبوک تک نکلے ہیں، حضرت
موسٰی علیہ السلام شام گئے ہیں۔ لیکن فتح خود نہیں کیا ، بلکہ ان کے جانے کے بعد ان کے جانشین حضرت
ہوشع بن نون نے فتح کیا، حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلے جائیں گے، آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانے کے بعد آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے جانشین حضرت عمرؓ
فتح کریں گے۔ آخر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ ایک کعبے کا بانی ہے ایک کعبے کا م محافظ
ہے، اے پیغمبر ! ابراہیم نے کعبہ بنایا ہے۔ اور آپ نے کعبہ کی حفاظت کرنی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے ۔ "
سدرۃ" بیر ی کا نام ہے۔ اور منتہیٰ کہتے
ہیں اختتام کو۔ یہ وہ مقام ہے۔ کہ جہاں نیچے والے اعمال نیچے والے اعمال پہنچتے
ہیں تو اوپر والے فرشتے یہاں سے اوپر کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور اوپر والے احکام
وہاں آتے ہیں تو نیچے والے فرشتے وہاں سے نیچے لے جاتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید اوپر صریف الاقلام تک پہنچے "صریف الاقلام "
جہاں تقدیر لکھنے والے قلموں کی آواز
آراہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
لیے ایک سواری رفرف آئی وہاں سے اورپر گئے ہیں آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش معلیٰ تک پہنچے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش پر گئے ہیں ، خدا سے بات بھی کی اور دیدار بھی کیا ،
اللہ کی بات کو سنا بھی ، اللہ کی ذات کو دیکھا بھی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ
تعالیٰ عنہ س روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا: رایت ربی عزوجل : میں نے اپنے رب
کودیکھا ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نور
اعظم (اللہ پاک) کو دیکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے پوچھا : میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم آپ مہمان بن کر آئے ہیں
، ہمارے لیے کیا لے کر آئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے عرض کی ، زبانی ، بدنی اور مالی عبادت آپ کے لیے ہیں۔
اللہ رب العزت نے اس کے بدلے میں تین انعامات فرمائے۔ رب
ذوالجلال نے فرمایا : اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی عبادت میرے
لیے ہے تو پھر میرا زبانی سلام بھی آپ کے لیے
، اگر آپ کی بدنی عبادت میرے لیے ہے تو میری رحمتیں بھی آپ کے لیے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا مال میرے لیے ہے تو اس مال میں برکت میری طرف سے ہیں۔
اسی موقع پر پانچ نمازوں کی فرضیت کا حکم بھی ہوا ۔ پہلے ہل
تو پچاس نمازوں کا حکم تھا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش پر بار بار کمی کے
بعد پانچ نمازیں باقی بچیں ۔ بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ البقرۃ
کی آخری چند آیات بھی اسی سفر معراج میں بطور تحفہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
عنایت کی گئیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رات کے مختصر وقت میں تاریخ انسانی کا سب سے طویل سفر طے
کیا ، مکہ مکرمہ سے بیت المقدس جانا، انبیائے کرام و ملائکہ کی امامت ، پھر وہاں
سے آسمانوں تک تشریف لے جانا ، انبیائے کرام سے ملاقات اور سدرۃ المنتہیٰ ، صریف
الاقلام ، قاب قوسین تک رسائی اور اللہ جل شانہ کی ذات بے مثل کی زیارت ، جنت و
دوزخ کا مشاہدہ کرکے واپس تشریف لائے۔
صبح اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے اپنے رات واقعے کو بیان کیا تو قریش جھٹلانے لگے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پا س گئے۔ حضرت
ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو سچ
فرمایا ہے۔ اس پر قریش کہنے لگے کہ کیا تم اس بات کی بھی تصدیق کرتے ہو؟ انہوں نے
فرمایا کہ میں تو اس سے بھی زیادہ عجیب باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور وہ یہ کہ
آسمانوں سے آپ کے پاس خبر آتی ہے۔ اسی وجہ سے سیدنا ابوبکر
صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لقب "صدیق
" پڑ گیا ۔ قریش مکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے بیت المقدس کے احوال دریافت کرنے لگے تو اللہ تبارک و تعالیٰ
نے بیت المقدس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
سامنے ظاہر فرما دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حطیم
کعبہ میں تشریف فرما تھے ، قریش سوال کرتے ، آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم ان کے سوالوں کا جواب دیتے جاتے۔
کوئی تبصرے نہیں