Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

شجاعت حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم

  بسم اللہ الرحمٰن الرحیم السلام علیکم ورحمتہ اللہ مَوْلَايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا           عَلٰی حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْق...

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ

مَوْلَايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا           عَلٰی حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْقِ کُلِّهِمِ
مُحَمَّدٌ سَيِّدُ الْکَوْنَيْنِ وَالثَّقَلَيْنِ             وَالْفَرِيْقَيْنِ مِنْ عُرْبٍ وَّمِنْ عَجَمِ

شجاعت مولائے مشکل کشاء شیر خدا

روئے زمین پر شیر خدا کا خطاب مولا مشکل کشاء کے حصے میں آیا۔ حضرت علی المرتضیٰ  کرم اللہ وجہہ الکریم کا لقب اسد اللہ بھی ہے۔ اور اسلام کے پہلے مبارز یعنی کفر کی للکار کا جواب دینا والا بھی شیر خدا مولائے کل حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔

سب سے پہلے مبارز

کفر اور اسلام کے درمیان ہونے والے بڑے معرکے غزوہ بدر میں جنگ شروع ہوئی تو مکہ کے تین بڑے بہادر عتبہ ، شیبہ اور ولید (اللہ تعالیٰ کی لعنت) میدان میں آئے اور مقابلے کے لیے للکارا ، کچھ انصاری جوان سامنے آئے تو وہ تکبر کرتے ہوئے کہنے لگے :ہم ان سے لڑیں گے ، ہمارے مقابلے کے لیے ہمارے جوڑ کے قریشی بہادر سامنے آئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے حمزہ ! اٹھیے ، اے علی ! اٹھیے ، اے عبیدہ بن حارث ! اٹھیے۔" جب یہ تینوں قریشی سپوت میدان میں پہنچے تو انہوں نے کہا : اپنا تعارف کراؤ۔

 سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں حمزہ بن عبدالمطلب ہوں۔ !

 سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا :  میں علی بن ابو طالب ہوں ۔!

سیدنا عبیدہ بن حارث  نے فرمایا: میں حارث کا بیٹا عبیدہ ہوں۔!

تعارف سن کر کہنے لگے  "ہاں ہمارے ہم پلہ معزز لوگ ہیں" پھر لڑائی شروع ہوئی اور تینوں کفار واصل جہنم ہوئے۔

اس حدیث کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے پہلے بڑے معرکے میں رسول اللہ ﷺ کے حکم پر سب سے پہلے جن افراد نے سب سے پہلے کفار کو للکارا ان میں ایک سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم تھے۔

غزوہ خندق میں عمر و بن عبدود کا قتل :

غزوہ خندق کے روز عمر بن عبدود (جو ایک ہزار سواروں کے برابر مانا جاتا  تھا) اپنی طاقت دکھانے کے لیے ایک جھنڈا لیے نکلا۔ جب اس نے میدان میں آکر للکارا تو سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مقابلے کے لیے اجازت چاہی۔ تاجدار ختم نبوت ﷺ نے اپنی خاص تلوار "ذوالفقار" اپنے دست مبارک سے حیدر کرار  کرم اللہ وجہہ الکریم کے ہاتھ میں دی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کے سر انور پر عمامہ باندھا اور یہ دعا کی : "یا اللہ ! علی کی مدد فرما" چنانچہ شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم  میدان میں تشریف لائے اور فرمایا : " اے عمرو تو نے اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ قریش میں سے جب بھی کوئی شخص تجھے دو میں سے ایک اچھے کام کی طرف بلائے گا تو تم اسے ضرور اختیار کروگے" اس نے کہا ہاں میں نے ایسا ہی کہا تھا : مولی المسلمین کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا :  "میں تجھے اللہ کے رسول ﷺ اور اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ عمرو نے کہا ! مجھے ان میں سے کسی کی حاجت نہیں ۔ حضرت علی  کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا! اب میں تجھے مقابلے کی دعوت دیتا ہوں : !

عمرو نے کہا !  بھتیجے ! کیوں مقابلہ چاہتے ہو؟ خدا کی قسم میں تجھے قتل کرنا پسند نہیں کرتا ۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا! "مگر اللہ کی قسم میں تجھے قتل کرنا چاہتا ہوں"

یہ سن کر وہ غصے سے تلملا اٹھا ۔ شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم پیدل تھے اور وہ سوار تھا اس نے غصے میں گھوڑے سے اتر کر اپنی تلوار سے گھوڑے کے پاؤں کاٹ ڈالے ، آگ کے شعلہ جیسی تلوار سونتی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی طرف لپکا اور ایسا زبردست وار کیا کہ آپ نے ڈھال پر روکا تو تلوار اسے پھاڑ کر گھس گئی ، یہاں تک آپ کے سر پر لگی اور زخمی کر دیا ۔ اب شیر خدا نے سنبھل کر اس کے کندھے کی رگ پر ایسی تلوار ماری کہ وہ گر پڑا اور غبار اڑا ۔ راوی کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے نعرہ تکبیر سنا جس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اسے جہنم میں پہنچا دیا ۔

(المستدرک علی الصحین  ، السیرۃ النبویہ ، زرقانی علی المواہب )

شیر خدا کی اس بہادری اور شجاعت پر میدان جنگ کا ایک ایک ذرہ زبان حال پکار اٹھا:

شاہ مرداں شیر یزداں قوت پروردگار

لا فتیٰ الا علی لا سیف الا ذوالفقار

غزوہ خیبر اور دیگر مواقع پر آپ کی بہادری کی داستانیں بھی تاریخ کا روشن باب ہیں ۔ سلام رضا میں ہے:

مرتضیٰ شیر حق اشجع الاشجعین

ساقی شیرو شربت پہ لاکھوں سلام

شیر شمشیر زن شاہ خیبر شکن

پر تو دست قدرت پہ لاکھوں سلام

اصل نسل صفا

اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی کہ نبی کریم ﷺ کے تمام صاحب زادے بچپن میں ہی وصال کر گئے ۔ کفار جب اسلام کی روز افزوں ترقی کو دیکھتے تو اپنا دل بہلانے کے لیے کہا کرتے تھے : فکر کی کوئی بات نہیں  ،  یہ چند روزہ کھیل ہے ، ان کی اولاد نرینہ تو ہے نہیں جو ان کے بعد اس مشن کو جاری رکھ سکے ، یہ چند سال کے مہمان ہیں  ، جب رخصت ہو جائیں گے تو ان کا یہ دین بھی نیست و نابود ہو جائے گا، ان کا کوئی  نام لیوا نہیں ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے  سورۃ الکوثر میں ان کی گستاخیوں اور خوش فہمیوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

"بے شک آپ کا دشمن ہی ہر خیر سے محروم  ، بے نسل اور بے نشان ہوگا"

یعنی جو میرے محبوب کا دشمن ہے ، جو ان کے دین کا بدخواہ ہے وہ مٹ جائے گا ، اس کی قوم سے بھول ہو جائے گی  ، تاریخ اسے فراموش کر دے گی ، اس کا کوئی نام لینے والا نہیں ہوگا ، اس کی طرف نسبت باعث ننگ و عار بن جائے گی اور میرے محبوب کے ذکر پاک کی شمع ہر وقت روشن رہے گی ، ان کی عظمتوں کے ترانے ہمیشہ پڑھے جائیں گے ، ان کی نسل میں ایسی برکت ہوگی کہ دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل جائے گی۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ یوں پورا فرمایا کہ سرور عالم ﷺ کا نسب پاک آپ کی شہزادی ، سیدہ خاتون جنت رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جاری کر دیا۔ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روای ہیں کہ جان رحمت ﷺ نے فرمایا:

مفہوم یہ ہے کہ "تمام انسانوں کے لیے یہ اصول ہے کہ نسب اپنے (فراش والے) والد سے ہوتا ہے ، حتیٰ کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے لیے بھی یہی ضابطہ تھا کہ ان کی اولاد سے ان کا نسب چلتا ، مگر میری شہزادی کے ساتھ نسبت کی وجہ سے علی المرتضیٰ  کا یہ اعزاز ہے کہ خاتون جنت کے ذریعے اولاد اس کی ہوگی مگر نسب میرا ہوگا"

سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ارشاد نبوی بھی نقل کیا :

"ہر ماں کی اولاد اپنے عصبہ (پاک) کی طرف منسوب ہوتی ہے ، سوائے اولاد فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ، ان کا ولی اور عصبہ میں ہوں"

سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم رسول اللہ ﷺ کی نسل پاک کے باپ ہیں  ، یہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی عزت میں اضافہ کا باعث ہے ، اس سے سید عالم ﷺ کی شان نہیں بڑھتی ۔ ماضی قریب میں بعض لوگ اس حوالے سے غلط فہمی کا شکار ہوئے اور ایسے جملے کہے جو جان عالم ﷺ کے شایان شان نہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی جو اولاد خاتون جنت سے ہے ، صرف وہی سادات ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی نسل پاک ہیں۔ ان کا نسب نبی کریم ﷺ کی طرف منتقل ہوتا ہے نہ کہ جناب ابو طالب کی طرف ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی دیگر اولاد نہ تو سادات کہلاتے ہیں  ، نہ ہی وہ آپ ﷺ کی نسل پاک سے ہیں ، اگرچی علوی ہیں اور قابل احترام مسلمان ہیں۔ اعلیٰ حضرت نے مشہور زمانہ سلام میں کہا :

اصل نسل صفا وجہ وصل خدا

باب فصل ولایت پہ لاکھوں سلام




1 تبصرہ