بسم اللہ الرحمٰن الرحیم السلام علیکم ورحمتہ اللہ مَوْلَايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا عَلٰی حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْقِ...
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
مَوْلَايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا عَلٰی حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْقِ
کُلِّهِمِ
مُحَمَّدٌ سَيِّدُ
الْکَوْنَيْنِ وَالثَّقَلَيْنِ
وَالْفَرِيْقَيْنِ مِنْ عُرْبٍ وَّمِنْ عَجَمِ
سیدنا حضرت علی علیہ
السلام
قدرت
الیٰہ نے کائنات کے تمام انسانوں پر نظر فرمائی ، اس کی نگاہ میں جو سب سے بہتر
تھے انہیں اپنے محبوب ﷺ کی صحبت و نیابت کے لیے منتخب فرمایا ، پھر انہیں آفتاب
رسالت ﷺ کی عالم تاب کرنوں سے یوں منور کیا کہ ہر رگ و ریشہ ایمان و ایقان کے
انوار سے جگمگا اٹھا۔ روئے زمین پر ریت کے ذرات شمار کرنے کا تو کوئی شخص دعویٰ
کرسکتا ہے ، مگر اصحاب رسول ﷺ کے فضائل و مناقب کو شمار کرنا ممکن نہیں۔ بالخصوص
چاروں خلفائے ذیشان علیہم الرضوان کے خصائص و فضائل تو ایسے ہیں کہ ان میں سے جس
کے مناقب پر نظر ڈالیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ ہیں یہی ہیں۔
پھر گلے کہ ازیں چار باغ می نگرم
بہار دامن دل می کشد کہ چا ایں جا است
ترجمہ: ان چارباغوں کے جس پھول کو بھی دیکھتا ہوں تو
بہار میرے دل کا دامن کھینچ کر کہتی ہے : اصل جگہ تو یہی ہے۔
بالخصوص
شیر خدا ، علی مرتضیٰ کے فضائل و مناقب کی شہرت تو سب سے بڑھ کر ہے ۔ وہ اللہ
تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ کے محب بھی ہیں اور محبوب بھی ، وہ داماد مصطفیٰ کریم ﷺ
بھی ہیں ، بھائی بھی اور نسل مصطفیٰ کریم ﷺ کے باپ بھی ، وہ ساقی کوثر بھی اور جنت
و دوزخ تقسیم کرنے والے بھی ، وہ تمام
مسلمانوں کے مولی بھی اور قوت پروردگار بھی (مولا علی علیہ السلام مشکل کشا)
13 رجب المرجب سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا یوم ولادت ہے ۔
حیات مبارکہ
مولی
المسلمین سیدنا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی کنیت "ابو الحسن "
اور "ابوتراب " ہے ۔ والدہ ماجدہ نے "حیدر"(شیر ) نام تجویز
کیا اور والد نے "علی" منتخب کیا ، "اسد اللہ " (شیر خدا ) کے
لقب نوازے گئے۔ نبی کریم ﷺ کے چچا جناب ابو طالب کے فرزند ہیں ، والدہ ماجدہ کا
نام سیدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہے ۔ عام الفیل کے تیسویں سال ، جب
نبی کریم ﷺ کی عمر مبارک تیس(30) سال بر س
تھی۔ 13رجب
المرجب بروز جمعتہ المبارک ، خانہ کعبہ شریف کے اندر پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی آپ ﷺ
کی تربیت میں رہے اور صرف 10 سال کی عمر میں اسلام قبول کر لیا ، پھر زندگی بھر آپ
ﷺ اور آپ کے دین کی خدمت میں مصروف رہے ۔ غزوہ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خندق وغیرہ
تمام اسلامی جنگوں میں بے پناہ شجاعت کے ساتھ شریک ہوئے ۔ سیدنا عثمان غنی کی شہادت کے بعد خلیفہ
منتخب ہوئے اور 4 برس 8ماہ اور 9 دن تک مسند خلافت پر رونق افروز رہے ۔ 17 یا 19
رمضان المبارک کو ایک بد بخت کے قاتلانہ حملے سے شدید زخمی ہوگئے اور 21 رمضان
شریف ، 40ہجری کی رات جام شہادت نوش فرمایا۔
مرتضیٰ شیر حق اشجع
الاشجعیں
مومن کے
جو اوصاف اللہ عزوجل کو بہت پسند ہیں ان میں سے ایک "راہ حق میں شجاعت اور
بہادری"ہے ۔ اللہ تعالیٰ دین کی خاطر شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ بہت پسند
فرماتا ہے۔ انسان تاریخ میں سب سے بڑے بہادر رسول اللہ ﷺ ہیں، آپ ﷺ کی قدموں کی
برکت سے آپ کی امت نے ہمیشہ بہادری کی انوکھی داستانیں رقم کیں۔
سلام اس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سرفروشی کے فسانے میں
"شجاعت
" کا مفہوم یہ ہے کہ خوفناک صورتحال میں بھی انسان کا دل مطمئن رہے اور وہ
انجام کی پرواہ کیے بغیر خوشی رضامندی اور چاہت کے ساتھ کی خاطر ڈٹ جائے۔ بعض لوگ
خوف والی بات سن لیں تو ان کا دل کانپنے لگتا ہے اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ
پریشان کن صورت حال میں بھی بے خوف اپنے مقصد کی طرف بڑھتے رہتے ہیں ، اسی کا نام
"بہادری" ہے۔
شجاعت کی فضیلت
قرآن
کریم میں متعدد مقامات پر اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو راہ حق میں ثابت قدمی اور
بہادری اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے ۔ ایک مقام پر صف بستہ مجاہدین کی تعریف کرتے
ہوئے ارشاد فرمایا:
(الصف4:61)
مفہوم یہ کہ اللہ تعالیٰ میدان جہاد میں سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ کر
جہاد کرنے والے صف بستہ مجاہدین سے پیار فرماتا ہے۔
سیدنا
سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ ہمیں (بہت اہتمام
کے ساتھ) درج ذیل کلمات تعلیم فرماتے جیسے (بچوں کو) لکھنا سیکھایا جاتا ہے۔
ترجمہ: اے اللہ ! میں بخل (کنجوسی) سے تیری پناہ
چاہتا ہوں ، اے اللہ ! میں بزدلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ "اے اللہ ! تیری
پناہ مانگتا ہوں کہ ہمیں ناکارہ عمر کی طرف لوٹایا جائے ، اور میں دنیا کے فتنے
میں مبتلا ہو جانے اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں"(صحیح بخاری،
حدیث :6390)
تاریخ
اسلامی میں جن لوگوں نے بہادری کی عظیم داستانیں رقم کیں ان میں سرفہرست ایک نام
مولی المسلمین سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ہے۔
شب ہجرت جان نثاری:
جس رات
آپ ﷺ نے مدینہ شریف کی طرف ہجرت کا سفر شروع کیا ، اس رات آپ کے در اقدس کے گرد
کفار کا محاصرہ تھا اور وہ آپ ﷺ کو شہید کرنا چاہتے تھے ، مگر اللہ کی شان کہ اس نے آپ ﷺ کو حفاظت کے
ساتھ وہاں سے مدینہ پاک روانہ کردیا اور کفار کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ قتل
کے ارادے سے آنے والوں میں وہ بھی تھے جن کی مانتیں حضور ﷺ کے پاس رکھی ہوئی تھیں۔
ٍاس نازک وقت میں آپ ﷺ نے ان کی امانتوں کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے سپرد کیا اور تمام تر تفصیلات ارشاد
فرمائیں کہ تم فلاں ، فلاں کو امانتیں
سپرد کر کے مدینہ آجانا ۔ ظاہر ہے کہ اس موقع پر آپ ﷺ کے بستر پر لپٹنے کے لیے
ایسے شخص کی ضرورت تھی جو نہایت بہادربھی ہو ار وفا شعار بھی۔ چنانچہ یہ سعادت حضرت علی
کرم اللہ وجہہ الکریم کے حصہ میں آئی۔
اللہ
تعالیٰ نے فرمایا :
ترجمہ:
اور لوگوں میں سے کوئی اللہ کی رضا کی تلاش کرنے لیے اپنی جان بیچ دیتا ہے اور
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے ۔
البقرۃ 207:2
تفسیر کے
مطابق یہ آیت سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں نازل ہوئی (تفسیر
قرطبی)
کوئی تبصرے نہیں