بسم اللہ الرحمٰن الرحیم السلام علیکم ورحمتہ اللہ مَوْلَايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا عَلٰی حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْقِ...
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
مَوْلَايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا عَلٰی حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْقِ
کُلِّهِمِ
مُحَمَّدٌ سَيِّدُ
الْکَوْنَيْنِ وَالثَّقَلَيْنِ
وَالْفَرِيْقَيْنِ مِنْ عُرْبٍ وَّمِنْ عَجَمِ
رسول اللہ ﷺ کی سیدہ فاطمہ علیہ السلام سے محبت
سیدہ عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) روایت کرتی ہیں کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے کے انداز ، خصلت اور
وضع میں فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے زیادہ رسول اللہ (ﷺ) کے مشابہ کسی کو نہیں
دیکھا۔ سیدہ فاطمہ (علیہ السلام) جب رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آتیں تو آپ
(ﷺ) ان کی طرف کھڑے ہوتے ، انہیں بوسہ دیتے اور پھر انہیں اپنی جگہ بٹھاتے اور
جب رسول اللہ (ﷺ) ان کے پاس جاتے تو وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوتیں ، آپ (ﷺ)
کو بوسہ دیتیں اور پھر آپ (ﷺ) کو اپنی جگہ بٹھاتیں۔
سیدنا مسور بن مخرمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بیان کرتے
ہیں جب سیدنا علی (علیہ السلام) نے
ابوجہل کی بیٹی (جو مسلمان تھی) سے منگنی کی تو سیدہ فاطمہ (علیہ السلام)
یہ سن کر رسول اللہ (ﷺ) کے پاس حاضر ہوئی اور کہا: "آپ کی قوم(بنو
ہاشم) کا خیال ہے کہ آپ (ﷺ)اپنی
بیٹیوں کی حمایت میں غصہ نہیں فرماتے ،
یہی وجہ ہے کہ علی (علیہ السلام) ابو
جہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں" یہ سن کر رسول اللہ (ﷺ) کھڑے
ہوئے ، میں اس وقت آپ (ﷺ) کی بات
سن رہا تھا ، آپ نے خطبے کے بعد فرمایا:
ترجمہ :
اما بعد: میں(ﷺ) نے ابوالعاص بن ربیع سے اپنی ایک
بیٹی کا نکاح تو اس نے جو بات کی اسے سچا کر دکھایا۔ بے شک فاطمہ(علیہ السلام)
میرے جسم کا حصہ ہے اور میں یہ گوارا نہیں کرتا کہ اسے رنج پہنچے۔ (سنو) اللہ کی
قسم! رسول اللہ (ﷺ) کی بیٹی اور
اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے عقد میں جمع نہیں ہوسکتیں۔"
(بحوالہ بخاری /کتاب فضائل اصحاب
النبی (ﷺ) باب ذکر اصھا النبی (ﷺ) الخ : 3729)
سیدنا مسور بن مخرمہ (رضی اللہ تعالیٰ ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو منبر پر فرماتے ہوے سنا:
ترجمہ:
"ہشام بن مغیرہ کے خاندان نےمجھ سے اجازت طلب کی ہے کہ
وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے کردیں ۔ تو
میں اس کی اجازت نہیں دیتا ، پھر اجازت نہیں دیتا ، ایک بار پھر اجازت نہیں دیتا۔
ہاں اگر ابن ابی طالب کا ارادہ ہے تو وہ میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے
نکاح کر لے۔ سیدہ فاطمہ (علیہ السلام)تو
میرے جسم کا حصہ ہے ، جو چیز اسے پریشان کرتی ہے وہ مجھے بھی پریشان کرتی ہے اور
جو چیز اس کے لیے تکلیف دہ ہے وہ میرے لیے بھی باعث اذیت ہے"
(بحوالہ / بخاری ، کتاب النکاح ، باب
ذب الرحل عن ابنتہ فی الغیرۃ والانصاف:
5230-مسلم 2449)
سیدنا مسور بن مخرمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بیان کرتے ہیں :سیدنا
علی (علیہ السلام) نے سیدہ فاطمہ (علیہ السلام) کی موجودگی میں ابو جہل
کی بیٹی کو نکاح کا پیغام بھیجا تو میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو اس سلسلے میں
منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا ، اس وقت میں بالغ تھا ، آپ (ﷺ) فرما رہے تھے :
"فاطمہ(علیہ السلام) میرے جگر کا ٹکرا ہے ، مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ
اپنے دین کےمتعلق آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائے۔" پھر آپ (ﷺ) نے بنو
عبد شمس میں سے اپنے داما د (سیدنا ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ
عنہ) کا ذکر کیا اور ان کی تعریف کی اور فرمایا:
ترجمہ:
اس نے مجھ سے بات کی تو سچ کہا اور جو مجھ سے وعدہ
کیا پورا کیا اور میں کسی حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا ، لیکن اللہ کی قسم ! اللہ کے رسول (ﷺ) کی
بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ (ایک مرد کے نکاح میں) کبھی جمع نہیں
ہوسکتیں۔
(بحوالہ مسلم / کتاب فضائل الصاحبۃ ،
باب من فضائل فاطمہ بنت النبی (علیہ السلام) 90/2449)
اس حدیث میں رسول اللہ (ﷺ) نے "میں کسی حرام کو
حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا " فرما کر یہ بتانا چاہا کہ ابو جہل کی بیٹی
سے علی (علیہ السلام ) کا نکاح شرعاً جائز ہے ، پھر بھی آپ (ﷺ) نے دونوں کو ایک شوہر کی
زوجیت میں اکٹھا کرنے سے دو منصوص اسباب کی وجہ سے منع فرمایا ، ایک یہ کہ اس سے فاطمہ (علیہ السلام)
کو تکلیف پہنچے گی اور پھر بالواسطہ نبی کریم (ﷺ) کو بھی تکلیف پہنچے گی۔
نتیجہ یہ ہو گا کہ تکلیف دینے والا ہلاک ہو جائے گا۔ چناچہ حضرت علی (علیہ
السلام) اور سیدہ فاطمہ (علیہ السلام) پر کمال شفقت کی وجہ سے آپ
(ﷺ) نے حضرت علی (علیہ السلام)کو اس شادی سے منع کر دیا ۔ دوسرا سبب یہ
کہ غیر ت کی وجہ سے فاطمہ (علیہ السلام) کے فتنے میں واقع ہو جانے کا
اندیشہ سے۔
کوئی تبصرے نہیں