Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

علم غیب بعطائے رب کریم (جل جلالہ)

  ﷽ السلام علیکم ورحمتہ اللہ مَوْلَايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا            عَلٰی حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْقِ کُلِّهِمِ مُحَمَّد...

 

السلام علیکم ورحمتہ اللہ

مَوْلَايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا           عَلٰی حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْقِ کُلِّهِمِ
مُحَمَّدٌ سَيِّدُ الْکَوْنَيْنِ وَالثَّقَلَيْنِ             وَالْفَرِيْقَيْنِ مِنْ عُرْبٍ وَّمِنْ عَجَمِ

علم غیب کیا ہے؟

علم غیب ان  حقیقتوں کا علم ہے جو نہ تو بدائیت عقل سے حاصل ہوں اور نہ انسان کے حواس خمسہ کے ذریعے ان تک رسائی ہو سکے۔ دوسرے لفظوں میں وہ نہ آنکھ سے نظر آئیں ، نہ کان سے سنائی دیں ، نہ ناک سے سونگھ کر یا زبان سے چکھ کران کا علم ہو سکے اور نہ ہی ہاتھ سے چھو کر ان کو محسوس کیا جاسکے اور نہ فطر و وجدان ہیان کی حقیقت کو جان سکیں۔

حضرت یوسف (علیہ السلام ) کے واقعات

اللہ تبارک تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعات کا علم انسانی ذرائع علم کے بغیر عطا فرمایا۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

ترجمہ:   اے حبیب مکرمﷺ یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم نے آپ کی طرف وحی فرما رہے ہیں۔

اسی طرح آسمانوں میں موجود چیزوں کو قرآن میں غیب کہا گیا ہے۔ یہ ہمارے لیے مگر آسمانوں میں فرشتے انہیں دیکھ رہے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں لہٰذا وہ اشیاء جسے لاکھوں  اور کروڑوں کی تعداد میں مخلوق دیکھ رہی ہے وہ زمین والوں کے لیے غیب ہے۔

شان رسالت اورمقام تکوین

اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ۔ قدرت کاملہ کا مالک ہے ۔ وہ جس شے کو چاہیے امر ِکن کے ذریعے عدم سے وجودمیں لے آئے۔ اس کی یہ شان کسی کی عطا کردہ نہیں بلکہ وہ مالک قدرت ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

ترجمہ:  (اس کے یہاں تو بس ارادہ کی دیر ہے ) اس کی شان یہ ہے کہ وہ کسی چیز  (کو پیداکرنے )کا ارادہ کرتا ہے اس سے کہتا ہے ہو جا پس وہ ہوجاتی ہے۔

حضور پاک (ﷺ)کی نسبت متعدد ایسے معجزات منقول ہیں جن سے آپ(ﷺ) کی شان تکوی کا اظہار ہوتا ہے۔

ایک غزوہ میں صحابہ کے پاس تلواریں نہیں تھی ، فقط چھڑیاں تھیں جو آپ (ﷺ) کے فرمان سے کاٹ دار تلوار کی شکل اختیار کر گئیں۔ روایت کے الفاظ ہیں:

ترجمہ:   آپ (ﷺ) نے کھجور کی شاخ سے فرمایا : اے چھڑی ! تلوار بن جاؤ پس وہ تلوار بن گئی۔

الیواقیت ولجواہر العبد الوہاب الشعرانی147:1

صحابہ کرام ان چوبی تلواروں سے دشمن پر حملہ آور ہوتے اور ان کی گردنیں تن سے جدا کر دیتے۔

جنگ  بدر میں حضرت عکاشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کی تلوار لڑتے لڑتے ٹوٹ گئی تو آپ ﷺ نے ان کو درخت کی ایک شاخ دے کر فرمایا کہ اضرب یعنی اس شاخ کے ساتھ جہاد کرو۔آگے روایت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ وہ شاخ ان کے دست حق پرست میں شمشیر آبدار بن گئی جس سے وہ کافروں کے ساتھ مصروف جہاد ہو گئے۔

وحی۔۔۔۔ ذریعہ علم غیب

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم (ﷺ) کو غیب کی خبروں سے بذریعہ وحی آگاہ فرمایا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

ترجمہ:  اے حبیب ِ مکرم یہ (قصہ) غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی فرما رہے ہیں۔

علامہ بیضاوی(رحمتہ اللہ علیہ) اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔

ترجمہ:  یہ خبر غیب ہے جسے آپ(ﷺ) نے نہ جانا مگر وحی کے ذریعے۔

اس سے معلوم ہوا کہ علم غیب کا ذریعہ وحی الٰہی ہی ہے۔

ترجمہ:  بے شک اللہ کا خاصہ ہے اور جو غیب رسول اللہ (ﷺ) اور آپ(ﷺ) کے علاوہ کسی اور کی زبان سے صادر ہو وہ بھی اللہ ہی کی طرف سے بذریعہ وحی یا الہام انہیں عطا ہوا۔

وحی کا مفہوم:

علم  غیب نبوت کا خاصہ ہے ۔ یہ نبوت اور رسالت کی بنیادی خصوصیت ہے۔ علم غیب کا سرچشمہ اور منبع وحی الٰہی ہے۔ اور نبی پر غیب وحی کے ذریعے مطلع ہوتا ہے ۔


 


ENGLISH TRANSLATION

 

In the Name of Allah Who are Mercy for all.

My Lord, pray and peace always and forever

On your lover is the best of all creation

Muhammad is the master of the all creatures and the all heavy

And the all groups from Arabia and from the Gulf

 

WHAT IS THE KNOWLEDGE OF THE UNSEEN?

The knowledge of the unseen is the knowledge of facts which are neither obtained from the intellect nor can the human senses reach them through senses. In other words, they cannot be seen with the eyes, heard with the ears, sniffed with the nose or tasted with the tongue, nor touched with the hand, nor can they be perceived, nor can the reality of nature and conscience be degraded. To know

THE EVENTS OF HAZRAT YUSUF (AS)

Allah Almighty bestowed upon His Beloved the knowledge of the events of Hazrat Yusuf (as) without human means of knowledge. Allaah says in the Qur'aan:

Translation: O Beloved, this is one of the stories of the unseen which We have revealed to you.

In the same way, the things in the heavens are called unseen in the Qur'an. They are for us, but the angels in the heavens are watching them. Those who are the creations of Allah, therefore, the things that millions and millions of creatures are seeing are unseen to the people of the earth.

THE GLORY OF THE PROPHETHOOD AND THE PLACE OF CREATION

Allah Almighty is Almighty. Nature is the owner of perfection. He brought into existence from non-existence by means of what He wanted. This glory of his is not bestowed on anyone but he is the possessor of power. Allaah says (interpretation of the meaning):

Translation: (It is only a matter of time before it is too late.) His glory is that he intends something (to be created) and tells him to be, so it becomes.

Numerous miracles have been narrated from the Holy Prophet (PBUH) which show the glory of the Holy Prophet (PBUH).

In one battle, the Companions did not have swords, only sticks which by the command of the Prophet (sws) took the form of a sharp sword. The words of the tradition are:

Translation: He (2) said to the palm branch: O stick! Become a sword, and it will become a sword.

Al-Yawaqit and Jawahar Al-Abd Al-Wahab Al-Sha'rani 147: 1

The Companions would attack the enemy with these wooden swords and cut off their necks from their bodies.

In the battle of Badr, the sword of Hazrat Akasha (RA) was broken while fighting, so he gave her a branch of a tree and told her to wage jihad with that branch. It is clear from the words of the narration that that branch The sword became in his right hand, which made him engaged in jihad with the disbelievers.

REVELATION THE SOURCE OF KNOWLEDGE OF THE UNSEEN

Allah Almighty informed His Beloved Kareem (1) about the news of the unseen through revelation. The guidance is from the Almighty.

Translation: O Beloved, this (story) is one of the news of the unseen which we are revealing to you.

Allama Baizawi (may Allah have mercy on him) writes in his commentary on this verse.

Translation: This news is unseen which you (3) did not know but through revelation.

From this it became clear that the source of knowledge of the unseen is divine revelation.

Translation: Indeed, it is a specialty of Allah and whatever is revealed from the tongue of the unseen Messenger of Allah (1) and anyone other than you (1) is also given to them by Allah through revelation or inspiration.

THE MEANING OF REVELATION:

Knowledge of the unseen is a feature of prophecy. This is the basic feature of prophecy and prophethood. The source and source of knowledge of the unseen is divine revelation. And the unseen is revealed to the Prophet through revelation.



کوئی تبصرے نہیں