Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE

Pages

بریکنگ نیوز

latest

فضیلت حضرت علی علیہ السلام

  بسم اللہ الرحمٰن الرحیم السلام علیکم ورحمتہ اللہ مَوْلَايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا            عَلٰی حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْ...

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ

مَوْلَايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا           عَلٰی حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْقِ کُلِّهِمِ
مُحَمَّدٌ سَيِّدُ الْکَوْنَيْنِ وَالثَّقَلَيْنِ             وَالْفَرِيْقَيْنِ مِنْ عُرْبٍ وَّمِنْ عَجَمِ

 سیدنا  حضرت علی علیہ السلام 

رسول اللہ (ﷺ) پر سب سےپہلے ایمان لانےوالے حضرت علی (علیہ السلام) ہیں۔سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے سیدنا علی (علیہ السلام)کے بارے میں کہا:

سیدنا علی (علیہ السلام) نے سیدہ خدیجہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے بعد لوگوں میں سے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔"

بعض روایات میں ہے کہ سب سے پہلے سیدنا ابو بکر صدیق(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے اسلام قبول کیا او بعض روایات میں ام المومنین سیدہ خدیجہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے سب سے پہلے اسلام قبول کرنا لکھا ہے۔ مستند روایات میں ہے کہ مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے اسلام قبول کیا، بچوں میں سب سے پہلے سیدنا حضرت علی (علیہ السلام) نے اسلام قبول کیا۔ اس وقت حضرت علی (علیہ السلام) کی عمر مبارک آٹھ سال تھی ، عورتوں میں سب سے پہلے سیدہ خدیجہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہھا) نے اسلام قبول کیا۔

سیدنا علی (علیہ السلام) کی بت شکنی

سیدنا علی بن ابی طالب (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں۔

ترجمہ:

میں نبی اکرم(ﷺ) کے ساتھ چل پڑا ، یہاں تک کہ ہم کعبہ کے پاس آئے تو اللہ کے رسول (ﷺ) نے مجھے فرمایا : بیٹھ جاؤ! پھر آپ (ﷺ) میرے کندھوں پر چڑھ گئے ۔ میں آپ(ﷺ) کو لے کر اٹھنے لگا تو آپ (ﷺ) نے مجھ پر کمزوری محسوس کی اورمیرے کندھوں سے اتر گئے۔پھر آپ (ﷺ) خود میرے لیے نیچے بیٹھے اور(مجھے) فرمایا : "تم میرے کندھوں پر چڑھو"۔ میں(حضرت علی  علیہ السلام) آپ (ﷺ) کے کندھوں پر چڑھ کر میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں چاہوں تو آسمان کے افق پر جا پہنچوں۔ یہاں تک کہ میں خانہ کعبہ پر چڑھ گیا ، وہاں پیتل یا تانبے کے بت تھے  ، میں نے انہیں اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے اکٹھاکر کے ایک جگہ ڈھیر لگالیا۔ اب مجھےرسول اللہ نے فرمایا: انہیں پھینک دو۔ چنانچہ میں انہیں پھینک دیا تو وہ اسی طرح ٹوٹ گئے جس طرح شیشہ ٹوٹتا ہے۔ پھر میں نیچے اتر آیا ، اب میں  اور اللہ کے رسول (ﷺ) دوڑنے لگے ، حتیٰ کہ ہم آباد ی میں چھپ گئے  ، اس ڈر سے کہ ہمیں کوئی دیکھ نہ لے۔"

سیدنا حضرت علی (علیہ السلام) کی  رسول اللہ (ﷺ) پر جان نثاری

ثقہ و متقن تابعی عمرو بن میمون (رحمتہ اللہ علیہ) بیان کرتے ہیں : " ایک دفعہ میں سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے پاس بیٹھا ہو اتھا کہ ان کے پاس 9(خارجی) افراد آئے ، انہوں نے کہا:اے ابو عباس! یا تو آپ ہمارے ساتھ آجائیں یا پھر یہ  لوگ ہم سے الگ ہوجائیں (ہم آپ سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں) "  سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا: میں تمہارے ساتھ (الگ ) ہو جاتا ہوں۔"  عمر بن میمون (رحمتہ اللہ علیہ) کہتے ہیں کہ یہ ان کے نابینا ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ وہ لوگ ان سے باتیں کرنے لگے  ، ہم نہیں جانتے  کہ انہوں نے کیا کہا ۔ پھر ابن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے آئے اورفرمانے لگے "اف افسوس (ان پر) انہوں نے اس شخص کے بارے میں زبان درازی کی ہے جو ایسے دس فضائل کا مالک ہے جو اس کے علاوہ کسی اور کے نہیں ہیں ، اف ، افسوس:

پہلی فضلیت :

ایک موقع پر  رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایاتھا :  ترجمہ:  "میں (کل) اس آدمی کو بھیجوں گا جسے اللہ کبھی رسول نہیں کرے گا ، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں"

پھر ہرکوئی اس سعادت کی آس لگائے بیٹھا تھا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا :"علی کہاں ہیں؟" صحابہ کرام نے کہا: "وہ تو چکی پیس رہے ہیں" آپ (ﷺ) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص چکی نہیں پیس سکتا؟ " پھر سیدنا علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) آئے  ، ان کی آنکھوں خراب تھیں اور وہ (صحیح طرح ) دیکھ نہیں سکتے تھے ، آپ (ﷺ) نے اپنا لعاب دہن حضرت علی (علیہ السلام) کی آنکھوں پر لگایا تو شفایاب ہو گئے۔  پھر آپ نے تین مرتبہ جھنڈے کو لہرایا اور وہ سیدنا حضرت علی ( علیہ السلام) کو عطا فرما دیا اور سیدنا علی (علیہ السلام)  صفیہ بنت حیی کو لے کر آئے۔

دوسری فضیلت:

رسول اللہ (ﷺ) نے ایک شخص کو سورۃ توبہ کے ساتھ بھیجا(کہ وہ مکہ میں پہلے حج کے موقع پر مشرکین سے براءت کا اعلا ن کریں گے) پھر اس کے پیچھے سیدنا علی (علیہ السلام) کو روانہ کیا تو انہوں نے جا کر اس سے سورت لے لی(یعنی وہ ذمہ داری اٹھائی) اور رسول اللہ (ﷺ) نے اس موقع پر فرمایا:

"اس سورت کو وہی لے کر جائے گا جومجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں"

تیسری فضلیت:

سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ پھر رسو ل اللہ (ﷺ) نے اپنے چچا زاد بھائیوں سے فرمایا:

ترجمہ:   تم میں سے کون ہے جو دنیا اور آخرت میں مجھ سے موالات کرے گا؟

اس وقت سیدنا علی (علیہ السلام ) بھی ان میں موجود تھے  ، ان سب نے انکار کر دیا تو سیدنا علی (علیہ السلام) نے فرمایا :

ترجمہ:  "میں آپ کے ساتھ دنیا او آخرت میں موالات کرتاہوں"

آپ (ﷺ) نے فرمایا:

"اے علی(علیہ السلام) آپ دنیا اور آخرت میں میرے دوست ہیں"

چوتھی فضیلت:

"سیدنا علی (علیہ السلام)سیدہ خدیجہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے بعد اسلام قبول کرنے والےپہلے شخص تھے"

پانچویں فضیلت:

حضرت عبداللہ بن عباس(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول (ﷺ) نےاپنی چادر لی اور اسے سیدنا علی (علیہ السلام) ، حضرت فاطمہ (علیہ السلام)  ، حضرت امام حسن (رضی اللہ تعالی عنہ) ، اور حضرت امام حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) پر ڈالا اور یہ آیت تلاوت کی:

ترجمہ: "اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کردے اے گھر والو! اور تمہیں پاک کر دے  ، خوب پاک کرنا "

چھٹی فضیلت:

حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ" سیدنا علی (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو فروخت کر دیا ، (اس طرح کہ ہجرت کی رات وہ نبی کریم(ﷺ) کی چادر اوڑھ کر ان کی جگہ سو گئے"

اس وقت مشرکین نبی کریم (ﷺ) کو پتھر مار رہے تھے۔ سیدنا ابو بکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) آئے تو سیدنا علی (علیہ السلام)  رسول اللہ (ﷺ) کے بستر پر سو رہے تھے۔ سیدنا ابو بکر صدیق (رضی اللہ تعالی عنہ) سمجھے کہ اللہ کے نبی (ﷺ) سو رہے ہیں ، انہوں نے آواز دی " اے اللہ کے نبی (ﷺ) ﷺ" ! تو سیدنا علی (علیہ السلام) نے انہیں بتایا:   نبی (ﷺ) بئر میمون کی طرف چلے گئے ہیں ، آپ وہاں ان سے مل لیں"

سیدنا ابو بکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) چلے اور پھر نبی (ﷺ) کے ساتھ غار میں داخل ہو گئے۔ ادھر (رات بھر) سیدنا علی (علیہ السلام) کی طرف پتھر پھینکے جاتے رہے ، جس طرح کہ نبی (ﷺ) کی طرف پھینکے گئے اور آپ (علیہ السلام) تکلیف کی وجہ سے دوہرے ہوتے رہے۔ آپ (علیہ السلام) نے اپنا سر چادر سے ڈھانپ رکھا تھا اور صبح تک اسے چادر سے باہر نہ نکالا ، پھر جب صبح ہونے پر اپنا سر باہر نکالا  تو مشرکین مکہ نے کہ :  تو تو بڑا عجیب انسان ہے  ، ہم تیرے ساتھی کو پتھر مارتے تھے مگر وہ تکلیف برداشت کرتا تھا جبکہ تو تکلیف کی وجہ سے دوہرا ہوجاتا ہے اور ہمیں یہ چیز ناپسند ہے۔

ساتویں فضیلت:

سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو سیدنا علی (علیہ السلام) نے آپ (ﷺ) سے عرض کی  "کیا میں بھی آپ (ﷺ) کے ساتھ جاؤں گا؟ نبی کریم(ﷺ) نے فرمایا "نہیں!" تو سیدنا علی (علیہ السلام) رونے لگ گئے ۔ اس پر آپ (ﷺ) نے ان سے فرمایا:

کیا تجھے یہ بات پسند نہیں کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو موسیٰ (علیہ السلام) کو ہارون(علیہ السلام) کو تھی ، مگر تم نبی نہیں ہو اورمیرے یہ لائق نہیں کہ میں مدینہ سے باہر جاؤں مگر تم میرے نائب ہو"

آٹھویں فضیلت:

سیدنا عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے سیدنا علی (علیہ السلام ) سے فرمایا:

"اے علی (علیہ السلام) تو میرے  بعد ہر مومن (مردو عورت) کا ولی و دوست ہے"

نویں فضیلت:

حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نےسیدنا علی (علیہ السلام)کے دروازے کے علاوہ مسجد کے تمام دروازے بند کردئے تھے اور سیدنا علی (علیہ السلام) جناب کی حالت میں بھی مسجد میں داخل ہو جایا کرتے تھے ، کیونکہ وہی ان کا راستہ تھا اس کے علاوہ ان کا کوئی راستہ نہیں تھا۔

دسویں فضیلت:

حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:

"جس کا میں مولا ہوں اس کا علی بھی مولا ہے"

سبحان اللہ




کوئی تبصرے نہیں