بسم اللہ الرحمٰن الرحیم السلام علیکم ورحمتہ اللہ مَوْلَايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا عَلٰی حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْقِ...
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
مَوْلَايَ صَلِّ وَسَلِّمْ دَآئِمًا اَبَدًا عَلٰی حَبِيْبِکَ خَيْرِ الْخَلْقِ
کُلِّهِمِ
مُحَمَّدٌ سَيِّدُ
الْکَوْنَيْنِ وَالثَّقَلَيْنِ
وَالْفَرِيْقَيْنِ مِنْ عُرْبٍ وَّمِنْ عَجَمِ
سیدناحضرت علی
(علیہ السلام)
حضرت
علی علیہ السلام بیان فرماتے ہیں :
"قیامت
کے دن میں پہلا شخص ہوں گا جو رحمٰن کے دربار میں اپنا دعویٰ پیش کرنے کے لیے
دوزانوں بیٹھوں گا"
قیس بن
عبا (رحمتہ اللہ علیہ) نے کہا کہ حضرت علی (علیہ السلام ) ہی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی تھی۔
"یہ
دو جھگڑنے والے ہیں ، جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا"
اور کہا
: یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے بدر کی لڑائی میں دعوت مقابلہ دی تھی ، یعنی حضرت علی
(علیہ السلام) ، حضرت حمزہ (رضی اللہ
تعالیٰ عنہ) اور حضرت عبیدہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ایک طرف شیبہ بن ربیعہ ، عتبہ
بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ دوسری طرف تھے۔
سیدنا
سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی :
ترجمہ: کہ دے آؤ! ہم اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں کو
بلا لیں اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں کو بھی اور اپنے آپ کو اور تمہیں بھی ،
پھر گڑ گڑا کر دعا کریں ، پس جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔"
تو رسول
اللہ (ﷺ) نے سیدنا علی (علیہ السلام) ،
سیدہ فاطمہ (علیہ السلام) ، حضرت امام حسن (رضی اللہ تعالیٰ ) اور سیدنا حضرت امام
حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو بلایا اور فرمایا:
"
اے اللہ یہ میرے گھر والے ہیں"
حضرت علی (علیہ السلام کا علم
ایک شخص
نے امیر المومنین حضرت علی (علیہ السلام)
سے پوچھا کہ مجھے اس گھر کے بارے میں بتائیں جو لوگوں کے لیے سب سے پہلے بنایا
گیا؟
حضرت
علی (علیہ السلام) نے گھر تو پہلے بھی موجود تھے ، نوح (علیہ السلام) اور ان کی
قوم گھروں میں ہی رہائش پذیر تھے ، لیکن بیت اللہ وہ پہلا گھر ہےجولوگوں کے لیے
بنایا گیا ۔ وہ شخص پوچھنے لگا کہ آقا :
مجھے اس کی تعمیر کے بارے میں بتائیے۔
حضرت
علی (علیہ السلام) نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف
وحی کی کہ میرے لیے گھر تعمیر کریں ، جس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا دل پریشان ہو گیا
تو اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا بھیجی جسے "سکینت" اور "خجوج" (تیز
ہوا) کہاجاتا تھا ، اس کا سر اور دو آنکھیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ
السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ جب وہ چلے تو اس کے ساتھ چلو اور جب وہ آرام کرے تو
آپ (علیہ السلام) بھی آرام کریں۔ تو وہ ہوا چلتے چلتے بیت اللہ کی جگہ پہنچ گئی۔
اس نے مطلوبہ جگہ پہنچ کر ڈھال کی طرح کنڈی مارلی۔ وہ جگہ بیت المعمور کے بالمقال
ہے جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل
ہوتے ہیں اور جو فرشتہ ایک مرتبہ داخل ہوتے ہیں
پھر قیامت تک دوبارہ ان کی باری نہیں آتی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور
اسماعیل (علیہ السلام) ہر روز اکٹھے بیت اللہ کی تعمیر کرتے اور جب گرمی شدید ہو
جاتی تو پہاڑ کے سائے میں آرام کرتے۔ پھر جب حجر اسود رکھنے کی جگہ پہنچے تو حضرت
ابراہیم (علیہ السلام) اپنے فرزند حضرت
اسماعیل (علیہ السلام) سے کہنے لگے۔ "میرے پاس ایک پتھر لاؤ ، تاکہ میں اسے
لوگوں کے لیے بطور نشانی یہاں رکھ دوں۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) وادی میں
گئے اور پتھر لے کر آئے ، لیکن حضرت
ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے چھوٹا سمجھ کر پھینک دیا اور کہا : کوئی دوسرا پتھر
لاؤ۔ اس پر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) وہاں سےچلے گئے ، تو اس دوران جبرائیل
(علیہ السلام) سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ایک پتھر لے کر آگئے۔ پھر جب
حضرت اسماعیل (علیہ السلام) واپس آئے تو ابراہیم (علیہ السلام) ان سے کہنے لگے :
میرے پاس وہ آیا ہے جس کے آنے سے مجھے تیرے پتھر کی ضرورت نہیں رہی۔ یوں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی تعمیر مکمل کی اور پھر وہ لوگ
اس کے گرد طواف کرنے لگے اور نماز پڑھنے لگے ، یہاں تک کہ وہ سب فوت ہو گئے۔ ان کے
بعد بیت اللہ منہدم ہو گیا تو پھر اسے عمالقہ نے تعمیر کیا اور وہ بھی طواف کرتے
رہے ، یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئے اور ان کا نام و نشان مٹ گیا ۔ان کے بعد پھر بیت
اللہ منہدم ہو گیا تو اسے قریش نے تعمیر کیا ، دوران تعمیر جب حجر اسود کو اس کی
جگہ رکھنے کے بارے میں اختلاف ہو گیا ۔ آخر یہ فیصلہ ہوا کہ جو شخص ابھی سب سے
پہلے اس دروازے سے داخل ہوگ اس بات کا فیصلہ کرے گا ۔ تو رسول اللہ (ﷺ) سب سے پہلے
اس دروازے سے تشریف لائے ، وہ سب کہنے لگے
کہ : امانت دار تشریف لے آئے۔" رسول اللہ (ﷺ) نے چادر پھیلائی اور اس
کے درمیان حجر اسود رکھ دیا اور قریش کے سرداروں کو (اسے اٹھانے کا) حکم دیا ، ان
سب نے چادر کے کنارے پکڑ کر حجر اسود کو اوپر اٹھایا ، تو رسول اللہ (ﷺ) نے حجر
اسود کو اپنے دست مبارک سے اس کی جگہ رکھ دیا۔
سیدنا علی (علیہ السلام) کا سیدہ فاطمہ
بنت محمد(ﷺ) سے نکاح
حضرت
عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے کہ جب سیدنا حضرت علی (علیہ
السلام)نے سیدۃ الکونین (علیہ السلام) سے شادی کی تو رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی
(علیہ السلام) سے فرمایا:
ترجمہ: اسے کوئی چیز دو ، حضرت علی (علیہ السلام) نے
فرمایا: میرے پاس تو کوئی چیز نہیں ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: وہ تمہاری حطمی زرہ کہاں
ہے؟
سیدنا
حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ :
رسول
اللہ (ﷺ) نے سیدہ فاطمتہ الزہرا(علیہ السلام) کو ایک چادر اور کجھور کی چھال سے
بھرا ہوا چمڑے کا ایک تکیہ عنایت فرمایا:"
سیدہ فاطمہ (علیہ السلام) کا زہد و قناعت اور صبر
سیدۃ
الکونین (علیہ السلام) کی زندگی تکلفات سے پاک اور نہایت سادہ تھی۔ آپ (علیہ
السلام) کی زندگی میں خوشحالی کی بہ نسبت تنگ و دستی زیادہ تھی ، جیسا کہ سیدنا
علی (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں۔
ترجمہ:
سیدہ فاطمہ (علیہ السلام) کو چکی پیسنے کی وجہ سے بہت تکلیف ہوئی ، پھر انہیں
معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول (ﷺ) کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں تو سیدہ پاک (علیہ السلام) رسول اللہ (ﷺ) خدمت گار لینے کی درخواست لے کر حاضر ہوئیں ،
لیکن آپ (ﷺ) سے ملاقات کا اتفاق نہ ہو سکا تو انہوں نےسیدہ عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ
عنہ) سے اس کا تذکرہ کیا ۔ جب نبی (ﷺ) تشریف لائے تو سیدہ عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ
عنہ) نے آپ (ﷺ)کے سامنے سیدہ پاک (علیہ السلام) کی درخواست پیش کر دی۔ حضرت علی
(علیہ السلام) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول (ﷺ) ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب
ہم اپنے بستروں میں جا چکے تھے ، ہم کھڑے ہونےلگے تو آپ (ﷺ) نے فرمایا اپنے بستروں
میں رہو۔" (پھر آپ بیٹھ گئے) حتیٰ کہ
میں نے آپ (ﷺ) کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں پائی۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا : میں
تمہیں اس چیز سے بہتر نہ بتاؤں جس کی تم نے مجھ سے درخواست کی تھی؟ وہ یہ کہ جب تم اپنے بسترمیں جانے کا ارادہ کرو
تو 34 بار اللہ اکبر 33 بار الحمد اللہ اور 33 بار سبحان اللہ پڑھ لیا کرو۔ایسا
کرنا تمہاری طلب کردہ چیز سے بہت بہتر ہے"
کوئی تبصرے نہیں